بغلول بہادر شہر کےقبرستان میں سے گزر رہا تھا ہر طرف گُھپ اندھیرا تھا۔ قبرستان میں ایک درخت تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اس درخت میںدو بھوت رہتے ہیں۔ بغلول بہادر کو ڈر لگ رہا تھا مگر وہاں سےا سے گزرنا بھی ضرور تھا۔
ملک خراسان میں ایک شخص رہتا تھا جس کا نام بغلول بہادر تھا۔ وہ بہادر تو نہیں تھا مگر اس کی قسمت بہت اچھی تھی۔ وہ جب بھی کسی مصیبت میں پھنس جاتا ہر بار قسمت اس کا ساتھ دیتی اور اس کی جان بچ جاتی۔ ایک رات کی بات ہے بغلول بہادر شہر کےقبرستان میں سے گزر رہا تھا ہر طرف گُھپ اندھیرا تھا۔ قبرستان میں ایک درخت تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اس درخت میںدو بھوت رہتے ہیں۔ بغلول بہادر کو ڈر لگ رہا تھا مگر وہاں سےا سے گزرنا بھی ضرور تھا۔ اپنا خوف دور کرنے کیلئے بغلول بہادر نے اونچی آواز میںچیخ کر بولنا شروع کردیا’’تم دو ہو اور میں ایک ہوں‘ میں جانتا ہوں تم درخت میں چھپے ہوئے ہو‘ ذرا سامنے توآؤ۔ اتفاق سے اس درخت کے پیچھے دو چور بیٹھے‘ ایک امیر سوداگر کے گھر ڈاکہ ڈالنے کا منصوبہ بنارہے تھے۔ بغلول بہادر کی آواز سنی تو ایک نے اسے دبوچ لیا اور پوچھنے لگے: سچ بتا! تجھے ہمارے بارے میں کیسے معلوم ہوا۔ کیا تو غیب کا علم جانتا ہے؟ بغلول بہادر سمجھ گیا کہ یہ دونوں کوئی چور ہیں۔ وہ سوچنے لگا کہ ان چوروں سے کیسے چھٹکارا پایا جائے۔ اتنے میں ایک چور بولا ’’اگر تجھے غیب کا بھید معلوم ہوجاتا ہے‘ تو بتا بڑی حویلی والے سوداگر کی بیوی نے اپنا نولکھا ہار کہاں رکھا ہے؟ بغلول بہادر کہنے لگا: ’’اگر تم مجھے مال میں سےآدھا حصہ دینے کا وعدہ کرو تو پھر بتاؤں گا۔‘‘ چور فوراً مان گئے۔ بغلول نے یوں ہی کہہ دیا کہ نولکھا ہار سوداگر کی بیوی نے اپنے کمرے کے اندر ایک ڈبے میں سنبھال کر رکھا ہے۔ چور اسی وقت گئے اور کمند لگا کر حویلی پر چڑھ گئے۔ ایک چور سوداگر کی بیوی کے کمرے میں داخل ہوگیا۔ سوداگر کی بیوی سورہی تھی۔ قریب ہی میز پر ایک ڈبہ پڑا تھا۔ چور نے اسے کھولا تو واقعی ہار اس ڈبے میں تھے۔ نولکھا ہار پاکر چور بہت خوش ہوئے۔ بغلول بہادر نے انہیں مشورہ دیا کہ رات کو جو آدمی بھی شہر سے نکلتا ہے‘ پہرے دار اس کی تلاشی لیتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ ہم اس ہار کو قبرستان میں چُھپا دیں‘ صبح آکر لے جائیں گے۔ میں اپنا حصہ بھی کل ہی لے لوں گا۔ چور مان گئے‘ انہوں نے وہ ہار ایک قبر میں چھپا دیا اور سرائے میں چلے گئے۔ بغلول بہادر وہاں سے سیدھا سوداگر کی حویلی میں گیا اور سوداگر کو جگا کر بتایا کہ اُس کی بیوی کا نولکھا ہار دو آدمیوں نے چُرا کر قبرستان میں چھپا دیا ہے۔ سوداگر نے حیران ہوکر پوچھا ’’تمہیں کیسے پتہ چلا؟‘‘ بغلول نے کہا: ان باتوں کوچھوڑو‘ اپنے ہار کی فکر کرو‘ چور کہیں ہار لے کر بھاگ ہی نہ جائیں‘سوداگر نے اسی وقت سپاہی ساتھ لیے اورقبرستان پہنچ گیا۔ بغلول نے قبر کی طرف اشارہ کیا جس میں ہار چھپایا گیا تھا۔ اسے کھودا گیا تونولکھا ہار مل گیا۔ بغلول بہادر بولا: اب جلدی سے چوروں کو بھی گرفتار کرلو وہ سرائے میں سورہے ہیں۔ سپاہیوں نے چوروں کو پکڑلیا۔ پھر ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ بادشاہ کا تاج چوری ہوگیا جس پر قیمتی ہیرے جواہرات جڑے تھے۔ بہت تلاش کیا گیا مگر تاج نہ مل سکا۔ وہی سوداگر جس کا نولکھا ہار واپس مل گیا تھا بادشاہ کی خدمت میں حاضرہوا اور کہنے لگا: بادشاہ سلامت! اس شہر میں بغلول بہادر نام کا ایک ایسا شخص رہتا ہے جو بتا دیتا ہےکہ چوری کامال کس جگہ چھپایا گیا ہے؟ پھر سوداگر نے بادشاہ کو اپنے نولکھا ہار کا سارا واقعہ کہہ سنایا۔ بادشاہ نے اسی وقت حکم دیا کہ بغلول بہادر کو ہماری خدمت میں فوراً حاضر کیاجائے۔ حکم کی دیر تھی‘ سپاہی فوراً دوڑے اور تھوڑی ہی دیر بعد بغلول بہادر بادشاہ کے سامنے حیران پریشان کھڑا تھا۔ بادشاہ نے کہا: ہمارا قیمتی تاج چوری ہوگیا ہے ہم تمہیں ایک رات کی مہلت دیتے ہیں اگر تم نے یہ نہ بتایا کہ ہمارا تاج کس نے چرایا ہے تو صبح تمہاری گردن اڑا دی جائے گی۔ بغلول بہادر تو ڈر کے مارے کانپنےلگا کہ مَیں یہ کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔ اس نے لاکھ کہا کہ بادشاہ سلامت مجھے بالکل معلوم نہیں کہ شاہی تاج کون چرا کر لے گیا ہے۔ مگر بادشاہ نے ایک نہ سُنی اور بولا: جس طرح تم نے سوداگر کے نولکھا ہار کا پتہ چلا لیا تھا اسی طرح تاج کا بھی سراغ لگا کر بتاؤ کہ وہ کہاں ہے نہیں تو صبح ہوتے ہی تمہارا سر قلم کردیا جائے گا۔ بغلول بہادر کو تہہ خانے میں ڈال دیا گیا۔ اب تو اسے یقین ہوگیا کہ موت کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ صبح ہوتےہی بادشاہ کے حکم سے جلاد اس کی گردن اڑادے گا۔ بغلول بہادر پہلے تو دل ہی دل میں خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہا۔ پھر اونچی آواز میں اپنے آپ سے کہنے لگا تم تو اپنے آپ کو بڑا خوش بخت سمجھتے تھے۔ اب تمہارا بچنا بہت مشکل ہے‘ تمہارا بھید کھل چکا ہے‘ تم مارے جاؤ گے۔ اتفاق سے قید خانے کے پہرے دار کا نام خوش بخت تھا۔ بادشاہ کے ایک وزیر نے تاج چوری کرکے اسی پہرے دار کے پاس رکھوا دیا تھا کہ بادشاہ جب تاج کا خیال چھوڑ دے گا تو اسے ملک یمن میں لے جاکر بیچ دیں گے۔ اب جو خُوش بخت نے سنا کہ بغلول بہادر اس کا نام لے کر کہہ رہا ہے کہ تیرا بھید کُھل چکا ہے تو فوراً قید خانے کا دروازہ کھول کر بغلول کے قدموں میں گر پڑا اور بولا تم تو واقعی غیب کا علم جانتے ہو‘ مجھے بچا لو، تاج میں نے چوری نہیں کیا بلکہ وزیر نے چرا کر میرے پاس رکھوا دیا ہے۔ خدا کیلئے بادشاہ کے سامنے میرا نام نہ لینا‘ نہیں تو بادشاہ مجھے قتل کروا دے گا‘ بغلول بہادر سمجھ گیا کہ اتفاق سے اس کا تیر نشانے پر جالگا ہے۔ وہ گردن اٹھاکر بڑی شان سے بولا‘ اچھا! میں وعدہ کرتا ہوں کہ بادشاہ کو تیرا نام نہیں بتاؤں گا۔ بس تم تاج میرے حوالے کردو‘ پہرے دار نے اسی وقت تاج اُسے لادیا۔ بغلول بہادر نے کہا: اب تمہاری جان صرف اس طرح بچ سکتی ہے کہ تم ابھی جاکر یہ تاج وزیر کےپلنگ کےنیچے چھپادو۔ پہرے دار اسی وقت وزیر کے محل کی طرف چل پڑا۔ وہ چھپتا چھپاتا محل میں داخل ہوا۔ وزیر گہری نیند سورہا تھا۔ پہرے دار نے تاج اس کےپلنگ کے نیچے چھپادیا اور واپس آکر قید خانے کے باہر پہرہ دینے لگا۔ اب بغلول بہادر بڑا خوش تھا۔ صبح ہوئی تو بغلول بہادر کو دربار میں لایا گیا۔ جلاد تلوار لیے تیار کھڑا تھا۔ بادشاہ نے بغلول سے کہا: تمہاری مہلت ختم ہوچکی ہے‘ پھر بھی میں تمہیں ایک آخری موقع دیتا ہوں۔ بتاؤ میرا تاج کس نے چرایا ہے؟ وہ بول اٹھا بادشاہ سلامت! آپ کا تاج وزیر نے چرایا ہے۔ بادشاہ نے حیرانی کے ساتھ وزیر کی طرف دیکھا۔ وہ گھبرا کر بولا: عالی جاہ! یہ شخص جھوٹا ہے‘ میں نے تاج نہیں چرایا‘ تب بغلول نے کہا حضور! ابھی وزیر کے محل میں چل کر دیکھ لیجئے‘ بادشاہ اسی وقت بغلول کو ساتھ لے کر وزیر کے محل میں گیا۔ تاج پلنگ کے نیچے پڑا تھا۔ بادشاہ بہت خوش ہوا۔ اُس نے بغلول کو انعام و اکرام سے نوازا اور وزیر کو قید میں ڈال دیا۔ بغلول نے اپنا وعدہ نبھایا اور بادشاہ کے سامنے پہرے دار کا نام تک نہ لیا۔(انتخاب:سانول چغتائی‘ رانجھو چغتائی‘ اماں زیبو چغتائی‘ بُھورل چغتائی‘ احمد پور شرقیہ)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں